تُو انگ انگ میں خوشبو سی بن گیا ہو گا
میں سوچتا ہوں کہ تجھ سے گریز کیا ہو گا
تمام رات مِرے دل سے آنچ آتی رہی
کہیں قریب کوئی شہر جل رہا ہو گا
تُو میرے ساتھ بھی رہ کر مِرے قریب نہ تھا
اب اس سے اور فزوں فاصلہ بھی کیا ہو گا
مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں
کبھی تو تو بھی مِری طرح سوچتا ہو گا
کبھی تو سنگِ ملامت کہیں سے آئے گا
کوئی تو شہر میں اپنا بھی آشنا ہو گا
ذرا سی بات پہ کیا دوستوں کے منہ آئیں
غریب دل تھا مروّت میں جل بجھا ہو گا
غلام جیلانی اصغر
No comments:
Post a Comment