جو دل کو پہلے میسر تھا کیا ہُوا اس کا
جو اس سکون سے بہتر تھا کیا ہوا اس کا
کہاں لیے چلی جاتی ہے مجھ کو ویرانی
یہیں کہیں پہ مِرا گھر تھا کیا ہوا اس کا
کچھ ایسے اشک پئے ہیں کہ اب خبر ہی نہیں
اس آنکھ میں جو سمندر تھا کیا ہوا اس کا
نظر گئی سو گئی پر کوئی بتائے مجھے
بڑے کمال کا منظر تھا کیا ہوا اس کا
یہ سوچنے نہیں دیتا ستم گروں کا ہجوم
کہ وہ جو پہلا ستمگر تھا کیا ہوا اس کا
میں صبح خواب سے جاگا تو یہ خیال آیا
جو رات میرے برابر تھا کیا ہوا اس کا
میں جس کے ہاتھ لگا ہوں اسے مبارک ہو
مگر جو میرا مقدر تھا کیا ہوا اس کا
فیضی
(محمد فیض)
No comments:
Post a Comment