Thursday, 2 September 2021

ہتھیلی میں ملنے کی ریکھا نہیں

 ریکھا


خستگی! میں تِرے سوزنوں سے کمائی ہوئی خاک ہوں

رود کوہی نے کیسے ڈبویا مِری ذات کو

رات کے باٹ سے کتنے ٹکڑے اٹھا کر جبینیں سجائی گئیں

نیند کی بیٹیاں شہرِ آشوب سے ڈھونڈ لائی گئیں

لعل مٹی میں ملنے کے قابل نہ تھے

کیوں ملائے گئے

آنکھ سے بحرِ کاہل کی جانب ندی چل پڑی

اک بلا دوزخی آن کی آن میں پل پڑی

کیا تہِ خاک ہے

موت بے باک ہے

تھامتے تھامتے اس کی باگیں

جوانوں کے کندھوں میں خم آ گئے

شہر میں کیسے اندھے بلَم آ گئے

دھات کی آنکھ سونے کے دل ہو گئے

وہ جو محبوب تھے

دیکھتے دیکھتے سنگدل ہو گئے

میں جو یکسانیت سے بہت اوبھتی تھی

اسی معنی خیزی کی دلدل میں دھنسنے کو تیار تھی

جس کے چاروں طرف آہنی باڑ تھی

جھاڑ جھنکاڑ تھی

خود پہنے ہوئے ایک کائر بدن

پھول چُھو کر جسے زخم کھاتا رہے

مخملی پتیوں سے لہو کو بہاتا رہے

کس کی تجویز تھی

اجنبی راستوں پر تقدم سے پہلے

کوئی فال، قرعہ نکالا نہیں

داستانوں میں اک داستاں تھی کہیں

جس میں اک بار پھر

ڈارکر میں گرے اور اینا ملے

کیوں کہ ان کی محبت کی راہوں میں

سکّے نمایاں نہ تھے

روپ کی دھوپ موسم پہن کر نکلتی تھی

اور جامعہ کے حسیں ٹیرسوں کی کئی کھڑکیاں

پائیں باغوں کی جانب کُھلی تھیں

مگر تم نے دیکھا نہیں

کاہنوں نے کہا تھا

بلوری ہتھیلی میں ملنے کی ریکھا نہیں


حنا عنبرین

No comments:

Post a Comment