ہر ایک گام پہ رنجِ سفر اٹھاتے ہوئے
میں آ پڑا ہوں یہاں تجھ سے دور جاتے ہوئے
عجیب آگ تھی جس نے مجھے فروغ دیا
اک انتظار میں رکھے دِیے جلاتے ہوئے
طویل رات سے ہوتا ہے برسرِ پیکار
سو چاک تیز ہوا ہے مجھے بناتے ہوئے
یہ تیز گامئ صحرا الگ مزاج کی ہے
جو مجھ سے بھاگ رہی ہے قریب آتے ہوئے
ہے ایک شورِ گزشتہ مِرے تعاقب میں
میں سن رہا ہوں جسے اپنے پار آتے ہوئے
میں امتزاجِ قدیم و جدید ہوں کامی
سو اسمِ عصر ہی پڑھنا مجھے بلاتے ہوئے
کامی شاہ
No comments:
Post a Comment