Thursday, 2 September 2021

کچھ اور رہے یا نہ بھی رہے اک مکھ سوہنے کا نور رہے

 کچھ اور رہے یا نہ بھی رہے اک مکھ سوہنے کا نور رہے

وہ ساتھ ہی ہو اور یہ بھی نہ ہو مہجور رہے مجبور رہے

اک رستے پر روشن چہرے اک صبح کی امید لئے

سب روزِ ازل سے نکلے تھے اک عرصے تک رنجور رہے

وہ آگ کہ جسم جلاتی تھی اس آگ کا ایندھن ہم سب تھے

ہم آگ کو دوست بنا بیٹھے ہم جلنے میں مسرور رہے

اک خواب کدے کی رنگینی اور خواہش بَن کی بے دینی

کچھ اپنے جنوں کا خمیازہ سب رقص میں تھے سب دور رہے

سید نے بلایا کربل میں تو ہم سب نے لبیک کہا

ہم کون سا تھے اصحاب کہف کہ ڈر بھی گئے محصور رہے

ہم جن کی سزائیں لمبی تھیں ازراہ رعایت زندہ ہوئے

عہدوں کیلئے رشوت بھی بھری زندانوں پر مامور رہے


ذکی عاطف

No comments:

Post a Comment