کچھ اور رہے یا نہ بھی رہے اک مکھ سوہنے کا نور رہے
وہ ساتھ ہی ہو اور یہ بھی نہ ہو مہجور رہے مجبور رہے
اک رستے پر روشن چہرے اک صبح کی امید لئے
سب روزِ ازل سے نکلے تھے اک عرصے تک رنجور رہے
وہ آگ کہ جسم جلاتی تھی اس آگ کا ایندھن ہم سب تھے
ہم آگ کو دوست بنا بیٹھے ہم جلنے میں مسرور رہے
اک خواب کدے کی رنگینی اور خواہش بَن کی بے دینی
کچھ اپنے جنوں کا خمیازہ سب رقص میں تھے سب دور رہے
سید نے بلایا کربل میں تو ہم سب نے لبیک کہا
ہم کون سا تھے اصحاب کہف کہ ڈر بھی گئے محصور رہے
ہم جن کی سزائیں لمبی تھیں ازراہ رعایت زندہ ہوئے
عہدوں کیلئے رشوت بھی بھری زندانوں پر مامور رہے
ذکی عاطف
No comments:
Post a Comment