Friday, 3 September 2021

یہاں تو ہم تھے ہمارے چراغ جلتے تھے

 یہاں تو ہم تھے ہمارے چراغ جلتے تھے

ہمارے گھر تھے، ہمارے درخت پھلتے تھے

ہم ان چھتوں پہ منڈیروں پہ بھاگتے تھے کبھی

ہم آنکھیں بند کیے سیڑھیوں میں چلتے تھے

ہمارے صحن میں خرگوش تھے ہمہ تن گوش

ہماری سیٹی کی آواز پر اچھلتے تھے

ہمارے پاؤں پہ بنتے تھے ریت کے گھر بار

گھروں کے نیچے خزانوں کے راز پلتے تھے

غدر کے بعد مہاجر گھروں کی اینٹوں میں

سنا ہے سونے کے زیور چھپا نکلتے تھے

خدا کو باندھ کے رکھا ہوا تھا کمرے میں

خدا سنا ہے سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے

شکستہ چمنی سے گیندے کے خشک ہار ملے

یہاں حسد کی چتا میں وجود جلتے تھے

ہماری راہ میں خانہ بدوش ٹیلے تھے

جگہ بدلتے تھے، صحرا نہیں بدلتے تھے

ان آئینوں سے ہی پوچھو گواہ یہ بھی ہیں

یہاں گرے تھے تو گر کر یہیں سنبھلتے تھے


عدنان بشیر

No comments:

Post a Comment