رات کے در پہ یہ دستک یہ مسلسل دستک
آمدِ صبحِ فروزاں کا پتا دیتی ہے
پھونک ڈالے گی یہ اک روز قبائے صیاد
آتشِ گل کو صبا اور ہوا دیتی ہے
تیرگی زادوں سے کب نور کا سیلاب تھمے
فیصلہ وقت کا تاریخ سنا دیتی ہے
آنچ آتی ہے ستاروں سے جو کچھ پچھلے پہر
خواب شیریں سے نگاروں کو جگا دیتی ہے
کتنی نادیدہ بہاروں کی تمنائے جواں
دامنِ جاں میں مِرے آگ لگا دیتی ہے
سینۂ سنگ میں بے تاب ہے وہ کاوشِ شوق
جو حقیقت کو بھی خوابوں کی ضیا دیتی ہے
شمعِ محرابِ وفا بن کے حیات رسوا
دل نگاری کا مِری کچھ تو صِلا دیتی ہے
حنیف فوق
No comments:
Post a Comment