Friday, 3 September 2021

دن کے سینے پہ شام کا پتھر

 دن کے سینے پہ شام کا پتھر

ایک پتھر پہ دوسرا پتھر

یہ سنا تھا کہ دیوتا ہے وہ 

میرے حق ہی میں کیوں ہوا پتھر

دائرے بنتے اور مٹتے تھے 

جھیل میں جب کبھی گرا پتھر

اب تو آباد ہے وہاں بستی 

اب کہاں تیرے نام کا پتھر

ہو گئے منزلوں کے سب راہی 

دے رہا ہے کسے صدا پتھر

سارے تارے زمیں پہ گر جاتے 

زور سے میں جو پھینکتا پتھر

نام نے کام کر دکھایا ہے 

سب نے دیکھا ہے تیرتا پتھر

تُو اسے کیا اٹھائے گا عادل

میر تک سے نہ اُٹھ سکا پتھر


عادل رضا منصوری


No comments:

Post a Comment