سفر
آوازیں رات کی خاموشی میں
اوجھل ہونے کا سندیسہ لائی ہیں
چاند کے آدھے ٹکڑے پر
کچھ خوابوں کی تدفین ہوئی ہے
گھڑے کا پانی قطرہ قطرہ ڈول رہا ہے
دیواروں کی مٹی میں برسوں سے
گوندھی کچھ پوروں کا لمس اچانک
قلب کدے میں چیخ پڑا ہے
رات کے کالے توّے پر
وحشت کی روٹی پکنے کو تّیار پڑی ہے
گھڑی کی دیمک سانس کا نادیدہ دروازہ چاٹ رہی ہے
میں یادوں کی تختی لے کر اس پر اپنے گھگھو گھوڑے
پریاں، جگنو، تتلی، گڑیا، بنٹے، ریت گھروندے
مور کے پر، بوسوں کی ٹافی، خواب کھلونے
اور حرفوں کا پاک صحیفہ
تصویروں میں ڈھال رہا ہوں
کل اور آج کے سارے رستے چل آیا ہوں
تنہائی کے چوراہے پر آن کھڑا ہوں
چاروں جانب اشکوں کی اک برف جمی ہے
سانس تھمی ہے
اور میرے ہاتھوں سے
کوئی بوڑھی انگلی چھوٹ رہی ہے
حماد نیازی
No comments:
Post a Comment