Friday, 3 September 2021

آوازیں رات کی خاموشی میں

 سفر


آوازیں رات کی خاموشی میں

اوجھل ہونے کا سندیسہ لائی ہیں

چاند کے آدھے ٹکڑے پر 

کچھ خوابوں کی تدفین ہوئی ہے

گھڑے کا پانی قطرہ قطرہ ڈول رہا ہے

دیواروں کی مٹی میں برسوں سے 

گوندھی کچھ پوروں کا لمس اچانک

قلب کدے میں چیخ پڑا ہے

رات کے کالے توّے پر 

وحشت کی روٹی پکنے کو تّیار پڑی ہے

گھڑی کی دیمک سانس کا نادیدہ دروازہ چاٹ رہی ہے

میں یادوں کی تختی لے کر اس پر اپنے گھگھو گھوڑے

پریاں، جگنو، تتلی، گڑیا، بنٹے، ریت گھروندے

مور کے پر، بوسوں کی ٹافی، خواب کھلونے

اور حرفوں کا پاک صحیفہ

تصویروں میں ڈھال رہا ہوں

کل اور آج کے سارے رستے چل آیا ہوں

تنہائی کے چوراہے پر آن کھڑا ہوں

چاروں جانب اشکوں کی اک برف جمی ہے

سانس تھمی ہے

اور میرے ہاتھوں سے 

کوئی بوڑھی انگلی چھوٹ رہی ہے


حماد نیازی

No comments:

Post a Comment