ایک آتش فشاں کے الاؤ تلے
برفزاروں کے من میں چھپی آگ ہے
اک حنائی ہتھیلی سے رستے ہوئے
دودھیا حسن کی ریشمی آگ ہے
موج در موج اشکوں میں سوئی ہوئی
نیند کے سنگ اک جاگتی آگ ہے
اے قیامت
تِری اجنبی خوابگاہوں میں
جلتی ہوئی اجنبی آگ ہے
اور ادھر
اک چِتا میں پگھلتی ہوئی
من کے اندر جھلستے ہوئے شہر کی
راکھ ہوتی ہوئی سر پھری آگ ہے
میں نہ جانے سلگتے ہوئے اک ابد کی
طلب میں کہاں تک بھٹکتا رہا
جس جگہ اک حرارت فشاں آگ تھی
میں ازل سے وہاں تک بھٹکتا رہا
راستوں میں کئی راستے کھو گئے
منزلیں تھک گئیں، جاگتے سو گئے
میں بھٹکتا رہا
پھر اچانک درِ چشم روشن ہوا
میں نے دیکھا فضا میں بڑی دور تک
جادۂ ذات سے وادئ طور تک
جگمگاتی ہوئی سرمدی آگ ہے
میرے حصے کی شاید یہی آگ ہے
شکیل پتافی
No comments:
Post a Comment