ادھورا رہ گیا مجنوں سے استفادہ مرا
سو پھر سے دشت کو جانے کا ہے ارادہ مِرا
عجیب شاخ تھی صندل کی مجھ سے کہتی تھی
بجائے سرمہ لگایا کرو بُرادہ مرا
ضرورتوں کی کفالت اسی کے ذمہ ہے
جسے خیال ہے مجھ سے کہیں زیادہ مرا
شیخ نگاہ تِری حاضری کو چل نکلوں
ہوائے توبہ سکھا دے اگر لبادہ مرا
تِرے نثار، تِرے لطفِ خاص کے قرباں
کہ تیرے ہاتھ نے رکھا ہے دل کشادہ مرا
معین نظامی
No comments:
Post a Comment