سر رہ گیا ہے دوش پہ اور دل نہیں رہا
کیا اس جہاں میں کوئی قاتل نہیں رہا
اے چشمِ یار! اب نہ تغافل نہ اِلتفات
کیا میں کسی سلوک کے قابل نہیں رہا؟
کیوں اس کو میرے دل سے عبارت کرے کوئی
وہ آئینہ جو تیرے مقابل نہیں رہا
اے ناخدا! سفینے کا اب کوئی غم نہ کر
ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا
پردہ اُٹھا کہ اب مِری مستی ہے، میں نہیں
جس سے تجھے حیا تھی وہ حائل نہیں رہا
کچھ تو تِرے خلوص کی تعظیم تھی عدم
ورنہ وہ جان بُوجھ کے غافل نہیں رہا
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment