ہم کو اپنی پر فشانی کا صلہ کیوں کر ملے
چاند پر جاکر بھی اے دنیا ہمیں پتھر ملے
صحنِ گُلشن کا یہ عالم تھا کہ جب آندھی رُکی
ہر طرف بکھرے ہوئے کچھ تتلیوں کے پر ملے
شام کے سینے میں خنجر گھونپ کر دن چھپ گیا
جس قدر منظر تھے سب خونِ شفق میں تر ملے
اپنی شکلیں دیکھنے سے کر رہے تھے سب گریز
آئینوں کے روبرو جتنے بھی سکندر ملے
رہبروں کے دم سے اب راہوں میں اتنی بھیڑ ہے
سوچتے ہیں اپنے گھر کا راستہ کیوں کر ملے
کوئی رسمِ دیر تھی یا کوئی دستورِ حرم
ہم کو سب معیار اپنی سوچ سے کمتر ملے
کس کو اب سجدوں کی حسرت کس کو ذوقِ بندگی
سر کے دُشمن تھے سبھی جتنے بھی سنگِ در ملے
کر چکے ہیں ختم ہم بہروپیوں سے میل جول
جس کو ملنا ہے وہ اصلی روپ میں آکر ملے
ان کے ہاتھوں میں قتیل اک دن چھُری دیکھو گے تم
وہ منافق جو گلے لگ کر تمہیں اکثر ملے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment