Tuesday, 1 March 2022

یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا

 یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا

ٹوٹا ہوں اس بنا پہ کہ میں کج نہاد تھا

الزام اپنی موت کا موسم پہ کیوں دھروں

میرے بدن میں میرے لہو کا فساد تھا

اب میں بھی جل کے راکھ ہوں میرے جہاز بھی

کل میرا نام طارق ابنِ زیاد تھا

ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی

اپنے خدا پہ کتنا مجھے اعتماد تھا

گہرے سمندروں میں بھی پتھر ملے مجھے

تھا میں گہر شناس مگر سنگ زاد تھا

تُو بادباں دریدہ سفینے کا ناخدا

اور قلزم سراب کا میں سندباد تھا

اب ہوں زباں بریدہ تو یہ سوچ کر ہوں چپ

یہ بھی سخن شناس کا انداز داد تھا


حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment