Friday, 10 June 2022

کسی کے تلخ لہجے سے بھی رنجیدہ نہیں ہوتا

 کسی کے تلخ لہجے سے بھی رنجیدہ نہیں ہوتا

میں غم دل پر نہیں لیتا، سو نمدیدہ نہیں ہوتا

یہ میں ہی تھا کہ پتھر کو بدل ڈالا ہے پارس میں

وہ کیا ہوتا؟ اگر میرا تراشیدہ نہیں ہوتا

ہے دل میں وہ طلسمِ رنگِ رخسار و لبِ جاناں

کوئی بھی پھول دیکھوں تو میں گرویدہ نہیں ہوتا

وہ جس کا ذکر ہوتا ہے اسی نے ہی نہیں سمجھا

ہمارا شعر اتنا بھی تو پیچیدہ نہیں ہوتا

مِری سنجیدگی، سنجیدگی اس نے نہیں سمجھی

کوئی اب مسئلہ بھی ہو، میں سنجیدہ نہیں ہوتا

عجب پتھر ہے جس کی تازگی ویسی کی ویسی ہے

اسے ہم چومتے رہتے ہیں بوسیدہ نہیں ہوتا

مجھ ایسے سر پھرے کا سر جھکانا سامنے اس کے

صغیر اے کاش وہ میرا پسندیدہ نہیں ہوتا


صغیر احمد صغیر

صغیر احمد احسنی

No comments:

Post a Comment