بے حسی
دلا
کس سے جھگڑ رہا ہے
مجھ سے
یا اپنے آپ سے
یا پھر اس عہد نامہرباں سے
جس نے ہم سے عمر کی نقدی چھین کر
ہمارے جذبوں کی جیبوں میں پتھر بھر دئیے ہیں
ہم سے بینائی مستعار لے کر
سبھی منظروں کا اندھا کر دیا ہے
ہماری سماعتیں بےمعنی لفظوں کے شور سے بہری ہو رہی ہیں
اب کوئی گلاب ہاتھوں میں لے کر ہمیں صداٸیں دے
یا ہمارے لہجے کے خار چن کر
ہمیں پکارے
ہمیں کچھ سنائی نہیں دیتا
ہمیں اب محبت کی آنکھوں میں خودترسی دکھائی دیتی ہے
ہمیں اب کسی کے چلے جانے سے فرق نہیں پڑتا
ہم عذاب لکھنے پر معمور ہو چکے ہیں
ہمیں اب وقت کا گریباں پکڑ کے
اس سے سارے حساب لینے ہیں
اسے بتانا ہے
ہمیں اب کسی کی بھی ضرورت نہیں رہی
سجل احمد
No comments:
Post a Comment