Friday 10 June 2022

بے حسی دلا کس سے جھگڑ رہا ہے

 بے حسی


دلا

کس سے جھگڑ رہا ہے

مجھ سے

یا اپنے آپ سے

یا پھر اس عہد نامہرباں سے

جس نے ہم سے عمر کی نقدی چھین کر

ہمارے جذبوں کی جیبوں میں پتھر بھر دئیے ہیں

ہم سے بینائی مستعار لے کر

سبھی منظروں کا اندھا کر دیا ہے

ہماری سماعتیں بےمعنی لفظوں کے شور سے بہری ہو رہی ہیں

اب کوئی گلاب ہاتھوں میں لے کر ہمیں صداٸیں دے

یا ہمارے لہجے کے خار چن کر 

ہمیں پکارے

ہمیں کچھ سنائی نہیں دیتا

ہمیں اب محبت کی آنکھوں میں خودترسی دکھائی دیتی ہے

ہمیں اب کسی کے چلے جانے سے فرق نہیں پڑتا

 ہم عذاب لکھنے پر معمور ہو چکے ہیں 

ہمیں اب وقت کا گریباں پکڑ کے

اس سے سارے حساب لینے ہیں

اسے بتانا ہے

ہمیں اب کسی کی بھی ضرورت نہیں رہی


سجل احمد

No comments:

Post a Comment