کیوں چاٹ نہ لوں خاکِ درِ یار ذرا سی
اکسیر ہے، اکسیر کی مقدار ذرا سی
اندیشہ ہے اک صاحبِ تقویٰ کی نظر کا
مے چھوڑ دیا کرتے ہیں میخوار ذرا سی
اے شوخ! غضب ہے تِرے ابرو کا اشارہ
کیا دیکھئے کرتی ہے یہ تلوار ذرا سی
سو ٹکڑے کروں دل کے تو لے کوئی خریدار
وہ کہتے ہیں یہ جنس ہے درکار ذرا سی
ساقی! مجھے ترسا کے پلاتا ہے مئے ناب
اک بار بہت سی نہیں،۔ ہر بار ذرا سی
کہتا ہے وہ ہم داغ کو دل میں نہیں رکھتے
میں چاہوں جگہ دے مجھے دلدار ذرا سی
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment