Friday, 15 July 2022

دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا

 دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا

مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا

دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی

آہ نہ جانا روتے روتے، یہ چشمہ دریا ہو گا

کیا جانیں آشفتہ دِلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں

وہ جانے گا حال ہمارا، جس کا دل بیجا ہو گا

پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر اپنی ہم نے رکھے

یہ دیکھا نہ رنگِ کفک پر ہنگامہ کیا برپا ہو گا

جاگہ سے بے تہ جاتے ہیں دعوے وے ہی کرتے ہیں

ان کو غرور و ناز نہ ہو گا جن کو کچھ آتا ہو گا

روبہ بہی اب لاہی چکے ہیں ہم سے قطعِ امید کرو

روگ لگا ہے عشق کا جس کو وہ اب کیا اچھا ہو گا

دل کی لاگ کہیں جو ہو تو میر چھپائے اس کو رکھ

یعنی عشق ہوا ظاہر تو لوگوں میں رُسوا ہو گا


میر تقی میر

No comments:

Post a Comment