Sunday, 17 July 2022

آ گئے ترے در پہ ایک التجا لے کر

 آ گئے تِرے در پہ ایک التجا لے کر

درد کی عطا لے کر درد لا دوا لے کر

زندگی مروّت ہے، حادثوں کا رونا کیا

خاک میں ملا دے گی بے خودی انا لے کر

ظلمتیں ہیں نفرت کی بھیڑ ہے قیامت کی

اور پھر رہی ہوں میں عشق کی ضیا لے کر

کیوں اٹھائے پھرتے ہو بوجھ ان جفاؤں کا

وقت پھر کھڑا ہو گا حشر میں صِلہ لے کر

باب ضبط خستہ پر جب اجل نے دی دستک

وہ پلٹ کے آئے ہیں پھر سے ابتدا لے کر

آبلے پریشاں ہیں، اور لہو لہو رستے

ہم چلے تھے گھر سے تو آپ کا پتہ لے کر

چل دئیے نسیم! آخر وہ انا کے رستے پر

آج تک کھڑے ہیں ہم دشت میں وفا لے کر


نسیم بیگم

No comments:

Post a Comment