Thursday, 14 July 2022

محبت لفظ تھا میرا

 محبت لفظ تھا میرا


میں اس شہر خرابی میں 

فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں

اسے گلیوں میں سڑکوں پر

گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈھتا تنہا

کہ وہ مل جائے تو تحفہ اسے دوں اپنی چاہت کا

تمنا میری بر آئی کہ اک دن ایک دروازہ کھلا اور

میں نے دیکھا وہ شناسا چاند سا چہرہ

جو شادابی میں گلشن تھا

میں اک شان گدایانہ لیے اس کی طرف لپکا

تو اس نے چشم بے پرواہ کے 

ہلکے سے اشارے سے مجھے روکا

اور اپنی زلف کو ماتھے پہ لہراتے ہوئے پوچھا

کہو اے اجنبی سائل

گدائے بے سر و ساماں

تمہیں کیا چاہیے ہم سے

میں کہنا چاہتا تھا 

عمر گزری جس کی چاہت میں

وہی جب مل گیا تو اور اب

کیا چاہے مجھ کو

مگر تقریر کی قوت نہ تھی مجھ میں

فقط اک لفظ نکلا تھا لبوں سے کانپتا ڈرتا

جسے امید کم تھی اس کے دل میں بار پانے کی

محبت لفظ تھا میرا

مگر اس نے سنا روٹی


عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment