نہ تمہارا حسن جواں رہا، نہ ہمارا عشق تپاں رہا
نہ وہ تم رہے نہ وہ ہم رہے، جو رہا تو غم کا سماں رہا
نہ وہ باغ ہیں نہ گھٹائیں ہیں، نہ وہ پھول ہیں نہ فضائیں ہیں
نہ وہ نکہتیں نہ ہوائیں ہیں، نہ وہ بیخودی کا سماں رہا
نہ وہ دل ہے اب نہ جوانیاں، نہ وہ عاشقی کی کہانیاں
نہ وہ غم نہ اشک فشانیاں، نہ وہ دردِ دل کا نشاں رہا
نہ چمن ہے وہ نہ بہار ہے، نہ وہ بلبلیں نہ ہزار ہے
یہی چار سمت پکار ہے، نہ وہ رُت ہے، اب نہ سماں رہا
نہ وہ قصے ہیں نہ حکایتیں، نہ وہ شکوے ہیں نہ شکایتیں
نہ وہ دردِ دل کی شکایتیں، نہ غمِ شرارہ فشاں رہا
نہ وہ عشق ہے نہ وفا رہی، نہ وہ حسن ہے نہ جفا رہی
نہ وہ اپنی اپنی ادا رہی، نہ وہ اپنا اپنا جہاں رہا
نہ وہ عمر ہے نہ مسرتیں، نہ وہ عیش ہے نہ وہ عشرتیں
نہ وہ آرزوئیں نہ حسرتیں، نہ خوشی کا نام و نشاں رہا
نہ نشاں ہے ساقی و جام کا نہ وہ بادہ ہائے چمن ادا
نہ مغنیہ رہی محوِ ساز، نہ وہ ساز مستِ فُغاں رہا
یہ بہارِ گُلشنِ آب و گِل ہے فنا اثر تو ہوں کیوں خجل
وہ گُلِ فسردہ ہے میرا دل، کہ ہمیشہ نذرِ خزاں رہا
نہیں صبر ساقیا! لا بھی دے، قدحِ بہار اٹھا بھی دے
ابھی سِن ہے لا کے پِلابھی دے کہ ہمیشہ کون جواں رہا
کہوں کیا کہ رنج رسیدہ ہوں، میں برنگِ ابر رمیدہ ہوں
نفسِ شمیم پریدہ ہوں کہ رہا تباہ، جہاں رہا
اثرِ بہارِ خزاں اثر ہے کہ ہے فسردہ مِری نظر
نہ ہوائے عشرتِ بال و پر، نہ جنونِ باغِ جناں رہا
میں گُلِ رمیدۂ رنگ و بُو، تُو بہارِ میکدۂ نمو
میں ہمیشہ خستۂ آرزو، تُو ہمیشہ عیشِ جواں رہا
نہ سکونِ دل نہ قرارِ جاں، نہ قیامِ صبر کوئی زماں
یہ سرشکِ غم کا ہے کارواں کہ یونہی ہمیشہ رواں رہا
تُو متاعِ گُلکدۂ نظر، گُلِ نو بہارِ بہشت اثر
میں وہ عندلیبِ شکستہ پر کہ ہمیشہ محوِ فُغاں رہا
نہ وہ سوز و سازِ دروں ہے اب، نہ وہ چشمِ گُلکدہ گُوں ہے اب
نہ وہ سر ہے اب نہ جنوں ہے اب، نہ وہ ذوقِ شعلہ چکاں رہا
ہے فلک کی بدلی ہوئی نظر، کہیں کس سے اخترِ نالہ گر
کہ میں اس کے جورِ الم اثر سے ہمیشہ محوِ فُغاں رہا
اختر شیرانی
No comments:
Post a Comment