تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ہو جائے
سُرمئ شال کا ڈالے ہوئے ماتھے پہ سِرا
بال کھولے ہوئے، صندل کا لگائے ٹیکا
یوں جو ہنستی ہوئی تُو صبح کو آ جائے ذرا
باغِ کشمیر کے پھولوں کو اچنبھا ہو جائے
تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ہو جائے
لے کے انگڑائی جو تُو گھاٹ پہ بدلے پہلو
چلتا پھرتا نظر آ جائے ندی پر جادو
جھک کے منہ اپنا جو گنگا میں ذرا دیکھ لے تو
نِتھرے پانی کا مزا، اور بھی میٹھا ہو جائے
تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ہو جائے
صبح کے رنگ نے بخشا ہے وہ مُکھڑا تجھ کو
شام کی چھاؤں نے سونپا ہے وہ جُوڑا تجھ کو
کہ کبھی پاس سے دیکھے جو ہمالہ تجھ کو
اس تِرے قد کی قسم اور بھی اونچا ہو جائے
تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ہو جائے
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment