بڑی سی عمر ہوئی دودھیا سے بال ہوئے
وہ اتنا پیارا ہوا, جتنے ماہ و سال ہوئے
کئی جواب دئیے اور کئی سوال ہوئے
نہیں ہوئے وہ نہیں آشنائے حال ہوئے
اسے بھی وقت کی مٹی نے گرد پوش کیا
لباس جس کے زمانے میں بے مثال ہوئے
اک ایسے موڑ پہ دونوں کو جب بچھڑنا تھا
تعلقات ہوئے تو کہاں بحال ہوئے
مِرے نصیب نے گرد آشنا اسے بھی کیا
جو پھول اس نے دئیے وہ بھی پائمال ہوئے
نہیں کہ ہاتھ کسی نے کبھی نہیں تھاما
پر ایسے لوگ زمانے میں خال خال ہوئے
کوئی کمال نہیں تھا ہماری قسمت میں
ہم اس لیے تو زمانے میں لازوال ہوئے
سخنوری میں نصیبوں کا ہاتھ بھی ہے عدم
کئے کمال تو سہواً بھی کچھ کمال ہوئے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment