پورنوگرافر
(نیئر مصطفیٰ کے لیے)
مجھے نظم لکھنی ہے
مگر نظم سر درد کا بہانہ کر کے بستر پر اوندھی لیٹی
سونے کی اداکاری کر رہی ہے
مجھے نظم لکھنی ہے
مگر نظم ہمسائی کے دور کے رشتے دار کی موت پر
تعزیت کرنے گئی ہوئی ہے
مجھے نظم لکھنی ہے
مگر نظم پرانے رسالوں میں سے تصویریں کاٹ کاٹ کر
اپنی البم میں سجا رہی ہے
مجھے نظم لکھنی ہے
مگر آج پھر اسے دفتر سے لوٹنے میں دیر ہو گئی ہے
مجھے نظم لکھنی ہے
مگر نظم نے آج شام کی چائے کے ساتھ
مجھے نشہ آور گولیاں کھلا دیں ہیں
مجھے نظم لکھنی ہے
مگر نظم آرام کرسی پر بیٹھی
نرکھ میں نرتکی“ پڑھ رہی ہے”
نیئر مصطفیٰ نے نظم کو مجھ سے چھین کر
میری زندگی کو نرکھ بنا دیا ہے
یقیناً کچھ ہی عرصے میں
مجھے اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ
نیئر نے نظم کو مجھ سے چھین لیا ہے
لوگ میرا مذاق اڑائیں گے
میں نظم کو بتاتا ہوں کہ نیئر اچھا آدمی نہیں ہے
مگر یہ بات تو وہ پہلے سے جانتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں کہ
وہ تمہیں کوئی خوشی نہیں دے سکے گا
وہ ہنسنے لگتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں کہ وہ بہت اونچا بولتا ہے
اور رات کو دیرتک آوارہ گردی کرتا ہے
وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں کہ وہ ایک لا دین آدمی ہے
وہ ایک بار پھر کتاب پڑھنے لگتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں کہ وہ حُلیے سے
گھر سے بھاگا ہوا بچہ نظر آتا ہے
وہ کتاب موڑ کر اس کی تصویر دیکھنے لگتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں کہ وہ کسی کا بھی نہیں
حتیٰ کہ اپنا بھی نہیں
وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں کہ وہ ایک بدروح ہے
اس نے تو کچھ عرصہ پہلے خودکشی کر لی تھی
وہ خاموشی سے سنتی رہتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں وہ شیشہ چبانے
اور کافور کی گولیاں نگلنے کا عادی ہے
میں اسے بتاتا ہوں
وہ اماوس کی راتوں میں
پرانے قبرستان کے کھنڈرات میں تیزاب پی کر
چڑیلوں سے ہمبستری کرتا ہے
میں اسے بتاتا ہوں وہ اتنا زہریلا ہے کہ
مچھر اسے کاٹ لیں تو سُوج کر مینڈک بن جاتے ہیں
میں اسے بتاتا ہوں وہ ایک باکسر ہے
جو خود کو گھونسے مارتا رہتا ہے
میں اسے بتاتا ہوں اس کی عمر ہزاروں سال ہے
اور تمام مذہبی کتابیں
اس کی صحبت سے بچنے کا درس دیتی ہیں
وہ بے چینی سے پہلو بدلتی ہے
اور ایک بار پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیتی ہے
میں اسے بتاتا ہوں؛ وہ ایسا لڑکا ہے جسے
کبھی کسی لڑکی نے بھائی بنانے کی خواہش نہیں کی
میں اسے بتاتا ہوں
وہ بچوں سے ٹافیاں چھین کر کھاتا ہے
میں اسے بتاتا ہوں
وہ لوہے کے دستانے پہن کر
پچھلے کئی برسوں سے مُشت زنی کر رہا ہے
نظم نے غصے سے میری طرف دیکھا
اور پاؤں پٹختی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی
میں نے بہت دن تک اس کا انتظار کیا مگر وہ نہ آئی
البتہ نیئر کو میں نے ۵ بار خواب میں دیکھا
وہ ہر بار ہاتھ میں چاقو پکڑے
ایک لڑکی کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا تھا
نظم میرے بہکاوے میں نہیں آئی
جس کا مجھے بہت افسوس رہا
میں اسے روکنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا
اگر ایک بار وہ نیئر کے پاس چلی گئی
تو پھر کبھی واپس نہیں آئے گی
وہ بہت اچھا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے
وہ پچھلی رات میں اٹھ کر گھوڑے کی آوازیں نکالتا ہے
اور دن بھر بطخوں کے لیے
کشتیاں بنانے کے منصوبے پر غور کرتا رہتا ہے
اس کی جیبیں طوطوں کے
اَدھ کھائے ہوئے بیروں سے بھری رہتی ہیں
اس کے ساتھ راتیں گزارنے والی طوائفیں بتاتی ہیں
وہ تمام وقت ان کے پیٹ پر
کچھوے پینٹ کرنے میں مصروف رہتا ہے
وہ راہ چلتے لوگوں کو روک کر
ان سے خودکشی کے طریقے پوچھتا ہے
وہ ہر ۴ سیکنڈ کے بعد عورت کے بارے میں
اور ہر ۷۱ ماہ بعد اپنے بارے میں سوچتا ہے
میں نظم کو بھول جانا چاہتا تھا
مگر کوئی فون پہ ناپسندیدہ آوازیں نکال کر مجھے چڑاتا
شاید میں اسے آسانی سے بھول جاتا
مگر فتح کے خمار میں بدمست اس ہاتھی کے قہقہوں نے
مجھے سب کچھ یاد رکھنے پر مجبور کیے رکھا
نظم کو گئے ہوئے بہت سی کالی راتیں گزر چکی تھیں
مجھے لگتا تھا اب وہ نہیں آئے گی
مگر ایک دن وہ لوٹ آئی
زخمی پاؤں، بکھرے ہوئے بالوں
اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ
وہ مجھے دیکھ کر سسکنے لگی
کافی دیر سسکنے کے بعد
اس نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے
بمشکل اتنا کہا
’تم ٹھیک کہتے تھے‘
اور اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھا دیا
ساحر شفیق
No comments:
Post a Comment