پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے
کیا ہے ہمارے دل میں بھلا جان جائیے
گھر غیر کے مزے سے مِری جان جائیے
شوخی و شرم دو ہیں نگہبان جائیے
مانی ہیں میں نے سینکڑوں باتیں تمام عمر
آج آپ میری بات مان جائیے
خنجر کمر سے کھینچ کے گردن پہ رکھ دیا
اور بولے؛ اب تو کہہ تیرے قربان جائیے
کہتے ہیں آ کے در پہ میرے پائیے گا کیا
ہاں خاک چھاننی ہو اگر چھان جائیے
آئے ہیں بال کھولے دمِ نزع، اس لیے
دنیا سے جائیے، تو پریشان جائیے
جانے کو منع میں نہیں کرتا مگر حضور
دل سے میرے نکال کر ارمان جائیے
بالیں آپ پر ہیں تو نکلتا نہیں ہے دم
مشکل کو میری کیجیۓ آسان، جائیے
کیا ہند میں کمی مے و معشوق کی امیر
شیراز جائیے،۔ نہ خراسان جائیے
امیر مینائی
No comments:
Post a Comment