اگرچہ یہ چاند پر کسی آدمی کا پہلا قدم نہیں ہے
مگر تِرے در پہ میرے پہلے قدم کا چرچا بھی کم نہیں ہے
ہمارا غم ملک بھر میں پھیلا ہے، کون سی آنکھ نم نہیں ہے
ہمارے بندھن کا ٹوٹ جانا، سقوطِ ڈھاکہ سے کم نہیں ہے
تُو عشق بھی ہے عقیدہ بھی ہے، میں تیری خاطر لڑوں گا سب سے
جو تجھ کو اچھا نہیں سمجھتا، مِرے لیے محترم نہیں ہے
مزے سے کُھل کر گلے لگاؤ کہ کوئی خود کُش بلا نہیں ہم
ہمارے سینے میں صرف دل ہے، ہمارے سینے میں بم نہیں ہے
مجھے سخن بعد میں سِکھا لینا، پہلے جملہ تو ٹھیک کر لو
درست ترکیب ہے براہِ کرم،۔ برائے کرم نہیں ہے
تُو خود کو شاہِ سخن سمجھ کر انہیں کنیزیں نہ جان، پیارے
یہ سادہ دل لڑکیوں کی اک جامعہ ہے،۔ تیرا حرم نہیں ہے
حسین تو خوب جانتے ہیں کہ ان کے عشاق کے گھروں میں
کچھ ایسے گھر بھی ہیں جن کے ماتھے پہ پنجتن کا علَم نہیں ہے
میاں مصور! ابھی یہ شہکار نامکمل ہے،۔ پھر سے دیکھو
کہ خوشبوئیں پھول سے الگ ہیں، درخت شاخوں میں ضم نہیں ہے
اگر میں اہلِ ہوس میں ہوتا تو چند بوسوں پہ رُک نہ جاتا
میں عشق والا ہوں اور میری لغت میں ہی لفظ تھم نہیں ہے
کسی کی بس اک جھلک کی خاطر تُو جان دینے چلا ہے فارس
عجیب عاشق ہے، کچھ حیا کر، یہ بھاؤ تو کافی کم نہیں ہے
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment