کہا جو میں نے؛ غلط کر رہی ہو چُن کے مجھے
اچانک اس نے کہا؛ چُپ، یہ بات سن کے، مجھے
کوئی جنون، ہوا میں اڑا دے میرا وجود
کوئی عصا ہو جو روئی کی طرح دُھنکے مجھے
کسی نے کہہ کے جب اک ہاں، بسایا دل کا جہاں
قسم خدا کی، سمجھ آئے معنی کُن کے مجھے
اُدھیڑ دے گر ارادہ نہیں پہننے کا
یہ کیا کہ ایک طرف رکھ دیا ہے بُن کے مجھے
تمہارے لوٹنے تک کچھ بُرا نہ ہو گیا ہو
نہ پاس چھوڑنا، مجھ ایسے بدشگُن کے، مجھے
شجر سے کاٹ لیا ہے تو اپنی میز بنا
اگر نہیں تو پھر آنے دے کام گُھن کے مجھے
فقیر لوگ سمجھ آئیں یا نہ آئیں، عمیر
کوئی سمجھتا نہیں ہے سوائے اُن کے مجھے
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment