اے خدائے زمین و زماں زندگی، آخری ساعتوں میں ٹھکانے لگے
اب یہ نوحے کی آواز موقوف ہو، اور فرشتہ کوئی گیت گانے لگے
ماجرے میں سلیماں کے اجلال پر، مفلسی مرحبا کہہ کے اٹھے مگر
حسنِ یوسف کا قصہ سناتے ہوئے، میری بد صورتی مسکرانے لگے
تجھ گلی سے گزرتا ہوا کارواں، جانتا ہو کہ یاں خواب ممنوع ہے
اور سواری پہ بیٹھی ہوئی آنکھ پر، موت پڑنے لگے، نیند آنے لگے
پیڑ پھلنے کے پابند ہوویں جہاں، مکھیاں شہد ڈھونے پہ مامور ہوں
کارخانے میں خاکی کا مقدور تھا، عشق کرتا ہوا، گیت گانے لگے
حشر کے ماند پڑتے ہوئے روز میں، آفرینش کی پُر شور گھنٹی بجے
تیل کے سرخ جلتے کنویں کے قریں، سبز کونپل کہیں سر اٹھانے لگے
رونے والوں کی مجلس میں یکبارگی، اک بجھائی ہوئی شمع کا ذکر ہو
بادشاہوں کی نیندیں اڑاتی ہوئی،۔ اپنے ماتم کی آواز جانے لگے
اپنے حجرے کی چلمن ہٹاتے ہوئے، اس نے کاری گری کا نظارہ کیا
بیل کولہو کے کُنڈل میں جَوتے گئے، آدمی خاک پر ہل چلانے لگے
احمد جہانگیر
No comments:
Post a Comment