نہیں تو پاگل
نہیں خفا میں
تمہاری پوروں نے
غیر ہونٹوں کی چاہ کر لی اگر تو کیا ہوا ہے
ہوئی کسی کی وہ جنگ
جو صرف میرے سر تھی اگر تو کیا ہے
کہ میں تعلق میں
سبز دل کی، سنہری آنکھوں کی معتقد ہوں
تمہارے ہونٹوں، تمہارے ہاتھوں
تمہاری خوشبو سے واسطہ کیا
مجھے نہیں گِلہ کہ تم نے
کسی کی وحشت زدہ تمنا پہ
اپنے جوبن کے بھید کھولے
یا میرے حصے کی تشنگی کو
کسی کے کاسے میں چھوڑ آئے
مگر اب بھی یہ پوچھتے ہو
کہ کیسے مانو گی بات میری
بتاؤ کب تک خفا رہو گی
میں کہہ رہا ہوں نہیں کروں گا
تو اور کتنی سزائیں دو گی
بتاؤں کیسے تمہیں میں پیارے
نہیں خفا میں
خفا تو تم سے محبتیں ہیں
کہ جن کے ماتھے کے بوسے لے کر
قسم اٹھاتے رہے ہو اکثر
خفا نگر کی وہ سب رُتیں ہیں
کہ جن میں وعدہ کیا تھا تم نے
کہ میں تمہارا رہوں کا اب سے
خفا ہیں کیمپس کے اب نظارے
خفا ہیں میرے رقیب سارے
خفا ہیں خوابوں کے سبز دھارے
جنہیں لگا تھا کہ تم مِرے ہو
تمہارے سینے میں غیر بانہوں کی
آشنائی کا کرب ہوتا تو کیا بُرا تھا
یا دل میں میرے
فقط اداسی کا رقص ہوتا اگر تو کیا تھا
جو دکھ رہا ہے
یہ سب فسانہ وہی جو ہوتا اگر تو کیا تھا
مگر جو تم نے محبتوں کے نحیف کاندھوں پہ
بے وفائی کا بوجھ ڈالا ہے، کون ڈھوئے؟
مِرے یقیں کے سفید دامن پہ
داغ جو کچھ بھی لگ چکے ہیں، وہ کون دھوئے
خفا نہ ہوں تو بتاؤ تم ہی، کہ کیا کروں میں
اٹھاؤں سامانِ آرزو میں
چلوں تمہاری مخالفت میں
یا تم کو بھیجوں وہیں جہاں پر
مِری رفاقت کا طوق جھٹلا کے آ رہے ہو
یا دفن کر دوں
کسی بھی اندھے کنویں میں آنکھیں
بتاؤ خود ہی، کہ کیا کروں میں
ماہ نور رانا
No comments:
Post a Comment