کوئی مر جائے تو کیوں کہتے ہو یوں ہے، یوں ہے
درد کے آخری درجے پہ سکوں ہے، یوں ہے
جسم سینے کے جو ماہر ہیں، انہیں کیا معلوم
زخم کی نوک فقط دل سے بروں ہے، یوں ہے
آئینہ نقل کرے تیری، کہاں ممکن ہے؟
ذائقہ، خوشبو، صدا، لمس، فزوں ہے، یوں ہے
عاشقی ردِ عمل حسن کی رعنائی کا
حسن کے سامنے ہر عشق نگوں ہے، یوں ہے
کُن کہا یا مِرے معبود ہمیں سمجھایا؟
کُن کہے عشق تو دنیا فیکوں ہے، یوں ہے
بعض شعروں سے تو ہم پھر سے جنم لیتے ہیں
شاعری ذہن کی خلقت کا فسوں ہے، یوں ہے
حسنِ ادراک بنا حوروں کا جُھرمٹ بے کار
من و سلویٰ بھی بنا ذوق کے دُوں ہے، یوں ہے
عشق کی تال پہ دھڑکے تو اسے دل کہیے
عشق تو جان مری، روح کا خوں ہے، یوں ہے
وہ تو کہتے ہیں کہ بس آج بہت بوسے دئیے
مسئلہ میرا ابھی جوں کا ہی توں ہے، یوں ہے
ہم نے یک طرفہ محبت میں جلا دی کشتی
یار کی سمت سے نہ ہاں ہے نہ ہوں ہے، یوں ہے
زہر کے خالی پیالے نے یہ سمجھایا قیس
عقل کے آخری درجے پہ جنوں ہے، یوں ہے
شہزاد قیس
No comments:
Post a Comment