مجھ پہ تیری تمنّا کا الزام ثابت نہ ہوتا
تو سب ٹھیک تھا
زمانہ تِری روشنی کے تسلسل کی قسمیں اٹھاتا ہے
اور میں تِرے ساتھ رہ کے بھی
تاریکیوں کے تناظر میں مارا گیا
مجھ پہ نظرِ کرم کر مخاطب ہو مجھ سے
مجھے یہ بتا میں تِرا کون ہوں
اس تعلق کی کیاری میں
اگتے ہوئے پھول کو نام دے
مجھ کو تیری محبت پہ شک تو نہیں
پر مِرے نام سے تیرے سینے میں رکھی ہوئی
اینٹ دھڑکے تو مانوں
کب تلک میں تِری خامشی سے یونہی
اپنی مرضی کے مطلب نکالوں گا
مجھ کو آواز دے
چاہے وہ میرے حق میں بُری ہو
تیری آواز سننے کی خواہش میں
کانوں کے پردے کھچے جا رہے ہیں
بول دے کچھ بھی
جو تِرا جی چاہے بول ناں
تیرے ہونٹوں پہ
مکڑی کے جالوں کے جمنے کا دکھ
تو بہرحال مجھ کو ہمیشہ رہے گا
تُو نے چپ ہی اگر سادھنی تھی
تو اظہار ہی کیوں کِیا تھا
یہ تو ایسے ہے
بچپن میں جیسے کہیں کھیلتے کھیلتے
کوئی کسی کو سٹیچو کہے
اور پھر عمر بھر اس کو مُڑ کر نہ دیکھے
تہذیب حافی
No comments:
Post a Comment