جاگ کر خواب سے بستر کی طرف دیکھا تھا
اور پھر چرخِ ستمگر کی طرف دیکھا تھا
تُو نے دیکھا تھا وہ پل، چشمِ خزاں نے جس وقت
آخری بار گلِ تر کی طرف دیکھا تھا
پھر کنارے پہ پہنچنے میں مجھے عمر لگی
میں نے اک بار سمندر کی طرف دیکھا تھا
آخرش ہجر کیا میرے حوالے اس نے
بارہا میں نے مقدر کی طرف دیکھا تھا
یاد ہے مجھ کو وہاں پھوٹ پڑا تھا چشمہ
تُو نے کس دھیان میں پتھر کی طرف دیکھا تھا
میں نے اظہارِ تشکر سے جھکا لیں نظریں
دار نے آج میرے سر کی طرف دیکھا تھا
عشق اس بات پہ ناراض ہے اب تک اشفاق
میں نے کیوں جاتے ہوئے گھر کی طرف دیکھا تھا
اشفاق ناصر
No comments:
Post a Comment