تیرے میرے درمیاں
تیرے میرے درمیاں اک نیند کی دیوار ہے
نیند جس کے اک طرف
موندی ہوئی آنکھوں کے کونوں پر لرزتے اشک ہیں
دوسری جانب
سنہرے بادلوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا مہتاب ہے
خواب کے حیرت سرا سے لوٹنا دشوار ہے
تیرے میرے درمیاں اک رات ہے
رات کے کونوں سے لپٹی ہیں مدھر سرگوشیاں
گفتگو کرتی ہوئی روحوں کے گرد
دائرے بنتی ہوئی خاموشیاں
ہجر عہدِ وصل کی سوغات ہے
تیرے میرے درمیاں اک نہر ہے
نہر کے دائیں کنارے
بنچ کے تختے پہ پہلے وصل کا ٹھہرا ہوا امکان ہے
دوسرے رُخ پر دلوں کے بیچ بنتے ربط سے
آنکھیں چُراتا شہر ہے
تیرے میرے درمیاں اک باغ ہے
باغ کے گُلپوش رستوں پر تِرے نقشِ قدم
میرے پیروں کے نشانوں سے بہم ہوتے ہوئے
لمحۂ موجود کی راحت پہ ہم روتے ہوئے
دل نہیں سینے میں اپنی بے بسی کا داغ ہے
تیرے میرے درمیاں اک میز ہے
تیری آنکھوں میں ہیں روشن
سامنے بیٹھے ہوئے اک اجنبی کے واسطے
آشنائی کے دِیے
دھڑکنوں کی دُھن
گزرتے وقت کی رفتار سے کچھ تیز ہے
تیرے میرے درمیاں اک بزم ہے
سننے والوں میں کہیں بیٹھی ہے تُو
میں تِری موجودگی سے بے خبر
اک نئی دنیا میں رکھتا ہوں قدم
میرے ہونٹوں پر پرانی نظم ہے
تیرے میرے درمیاں اک بھید ہے
میں سمندر کا مسافر ہوں کوئی
وقت کی لہریں ہیں میرے چار سُو
تُو جزیرہ کی طرح سر سبز ہے
میری کشتی میں مگر اک چھید ہے
جتنی دُوری پر فنا ہوتا ہوں میں
تیری نظروں میں وہاں کچھ بھی نہیں
تیرے میرے درمیاں کیا کچھ نہ تھا
تیرے میرے درمیاں کچھ بھی نہیں
عدنان محسن
No comments:
Post a Comment