Sunday 17 July 2022

لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے

 لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے

جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے

تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی

اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے

آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں

کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے

زُلف ایسی کے سیاہ ریشمی جنگل کوئی

نین اس شخص کے ہیں سُرمئی مرمر ایسے

کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا

بات تھی بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے

ہائے، آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر

ہمیں کہنا پڑا؛ لکھے تھے مقدر ایسے


ازبر سفیر

No comments:

Post a Comment