Sunday, 17 July 2022

سانسیں اکھڑ رہی ہیں مری مر رہا ہوں میں

سانسیں اکھڑ رہی ہیں مِری مر رہا ہوں میں 

دیکھو مجھے، مذاق نہیں کر رہا ہوں میں

تم نے تو کوئی رنگ دیا ہی نہیں مجھے 

اب جو سمجھ میں آ رہے ہیں بھر رہا ہوں میں

خوش بھی ہوں آخرش میں ثمر بار تو ہوا 

اور پتھروں کی چوٹ سے بھی ڈر رہا ہوں میں 

کیا یاد آ گیا مجھے دریا کو دیکھ کر

یہ پانی اپنی اوک میں کیوں بھر رہا ہوں میں

یوں ٹوٹتا ہے جسم مِرا لمحہ لمحہ دوست 

جیسے کسی طویل سفر پر رہا ہوں میں 

وہ گھاؤ تھا سفیر کہ جانبر نہ ہو سکا  

لیکن خدا کا شکر ادا کر رہا ہوں میں


ازبر سفیر

No comments:

Post a Comment