بیٹیوں جیسی ہے تُو، سو جب بڑی ہو جائے گی
اے اُداسی! کیا تِری بھی رُخصتی ہو جائے گی
ایک ہی تو شخص مانگا ہے خُدایا! دے بھی دے
کون سا تیرے خزانوں میں کمی ہو جائے گی
میری بستی میں تو تِتلی پر بھی مَر مِٹتے ہیں لوگ
تیرے آنے سے تو خلقت باؤلی ہو جائے گی
میرا کیا ہو گا، بتا؟ تیری محبت ہار کر؟
تیرا کیا ہے، تجھ کو فوراً دوسری ہو جائے گی
میرے حصے کی خوشی پر کڑھنے والے دوستو
اس طرح کیا میری نعمت آپ کی ہو جائے گی؟
پھول کُمہلا جائے گا اتنی مُسلسل دھوپ سے
ہجر کی شدت سے گوری سانولی ہو جائے گی
دُور ہے جس بزم سے اس بزمِ کی نیت تو کر
غیر حاضر شخص! تیری حاضری ہو جائے گی
بولنے سے شرم آتی ہے، تو آنکھوں سے بتا
چُپ بھی ٹوٹے گی نہیں اور بات بھی ہو جائے گی
اور کیا ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ ہجر میں
سانس کی مہلت میں تھوڑی سی کمی ہو جائے گی
اس کو فارس! اپنے سچے لمس کا تریاق دے
تیری آنکھوں کی ڈسی اچھی بھلی ہو جائے گی
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment