Friday, 21 July 2023

احسان ہے حسین کا میں کربلا میں ہو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہو


پلکوں پہ ہیں ستارے کہ سجدوں کی ہے قطار

اے مصطفٰیﷺ کے پاک نواسے ترے نثار

زہراؑ کی آبرو ہے تُو حیدرؑ کی ذوالفقار

تیرا طواف کرنے کی حسرت ہے بار بار

تیرے حضور آ کے میں حیرت سرا میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں


جود و سخا میں آپ کا ثانی کوئی نہیں

صبر و رضا میں آپ کا ثانی کوئی نہیں

شمس و ضحیٰ میں آپ کا ثانی کوئی نہیں

ہر انتہا میں آپ کا ثانی کوئی نہیں

دامن میں کیا نہیں ہے میں بحرِ عطا میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں


مٹی کو چھُو لیا تو وہ خاکِ شفا بنی

اصغرؑ کی پیاس چوم کے اِس کی ضیا بنی

اکبرؑ کے پاک خون سے اس کی بقا بنی

قاسمؑ کے تو وجود سے یہ کربلا بنی

آتا نہیں یقین کہ اس پاک جا میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں 


جو تجھ سے دور ہو وہ خدا سے قریں کہاں

صورت تو آدمی کی ہے لیکن نہیں، کہاں

دیں تو فقط حسینؑ ہے اور اس کا دیں کہاں

یہ اوجِ در کہاں تِرا اور یہ جبیں کہاں

یوں لگ رہا ہے عرش کی میں انتہا میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں 


پھولوں کو رنگ و بُو تِری خیرات میں ملے

سارے جہاں کے رنگ تِری ذات میں ملے

کچھ دن کی شکل میں ڈھلے کچھ رات میں ملے

اسرارِ کُن ازل سے تِری ہاتھ میں ملے

کر لے قبول مجھ کو میں اس پل دعا میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں


زہراؑ کے واسطے مِرے آنسو قبول کر

مولا! میں تیرے در پہ ہوں، اِس پل کو طول کر

مجھ کو امامِ عصر(العجل) کے قدموں کی دھول کر

آ، اے امامؑ، اجرِ رسالتﷺ وصول کر

لگتا ہے آج اس گھڑی، روزِ جزا میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں


اک پل کو میرے ہاتھ میں اصغرؑ تھما کے دیکھ

اکبرؑ کے تُو کلیجے سے نظریں ہٹا کے دیکھ

جا، شام کو سکینہؑ کے زخموں کو جا کے دیکھ

تنہا ہے کوٹھری میں گلے سے لگا کے دیکھ

اے غم کی انتہا! میں تری ابتداء میں ہوں

احسان ہے حسینؑ کا میں کربلا میں ہوں


فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment