جانے وجودِ ہست میں کیسی دھمال ہے
یہ اوجِ آسمان بھی یا رب! کمال ہے
کچھ دیر اور گُھومنا ہے جسدِ خاک نے
ان ساعتوں میں اب قدم اُٹھنا مُحال ہے
اب کے عروجِ وقت میں ڈُوبے گا کیا نصیب
ٹُوٹے گا وہ طلسم جو قُفلِ زوال ہے
ساقی فنا کا جام بھی پی لوں، نظر مِلا
پھر وردِ ہُو کروں یہی عکسِ جمال ہے
ٹپکے شرابِ اشکِ رواں خشک آنکھ سے
شامِ فراقِ یار بھی شامِ وصال ہے
مقبول حسین سید
No comments:
Post a Comment