عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا
بہتے دریا كے لبوں پر پیاس كا صحرا لكھا
كس نےاس كی چھاؤں میں كر دی ملاوٹ دھوپ كی
غیر كے سر پر بھی جس نے دھوپ میں سایہ لكھا
سر نِگوں سچاٸی كو كب كر سكی تیغِ سِتم
جرأتِ شبیرؑ نے حرفِ وفا كیسا لكھا
كربلا میں كِشتِ دیں كی آبیاری كے لیے
پیاس كے ماروں نے اپنے خون كا دریا لكھا
رو پڑی ہو گی اجل اس سنسناتے تیر پر
گردنِ اصغرؑ پہ جس نے زخم اک گہرا لكھا
سیدہ زینبؑ! تِرے صبر وتحمل كو سلام
تُو نے لوحِ زندگی پر حوصلہ كیسا لكھا
جب بھی نكلا عدل كو یكسر مٹانے كے لیے
ظلم نے فیضی! خود اپنی قبر كا كتبہ لكھا
اسلم فیضی
No comments:
Post a Comment