Tuesday, 18 July 2023

ڈائن کائی پیڑوں کو کھا گئی ہے

 ڈائن


کائی پیڑوں کو کھا گئی ہے

زمیں پہ بکھرے ہوئے یہ پنجر

بتا رہے ہیں پتہ کسی کا

اندھا کنواں شہر سے باہر

کیسے کیسے جوان رعنا نگل گیا

کوئی باقی بچا نہیں ہے

بجُز بلائے مرگ آسا

وہ ایک بُوڑھی، کُبڑی ڈائن

جو پچھلی راتوں کو عصا تھامے

بہت مصیبت سے رینگتی ہے

کنویں سے باہر رینگتی ہے

لہو کے تازہ مزے کی خاطر

کس کرب سے وہ چیختی ہے

کوئی ہے کیا؟

سُن رہا ہے؟

کہاں گئے ہو؟

سو گئے ہو یا جاگتے ہو؟

بستی والو! تمہاری دیوی تمہیں بلاتی ہے، خون لاؤ

خون لاؤ کہ میں تمہیں اپنی خوابگاہ کے مہین پردوں میں وہ دکھاؤں

جو اس زمیں کی کسی بھی عورت کے خواب تک کا گماں نہیں ہے

وہ چیختی ہے

مگر وہ عاشق جو اس نے پچھلے کئی برس میں چبا کے پھینکے

وہ کیسے بولیں

کہ اندھی ڈائن کے آئینے میں کوئی جادو بچا نہیں ہے

سارے عاشق مر گئے ہیں

صبح تک وہ یونہی چیختی ہے

پھر آئینے کی اندھیر نگری میں تھک کے بُھوکی ہی اُونگھتی ہے


مریم مجید

No comments:

Post a Comment