ڈائن
کائی پیڑوں کو کھا گئی ہے
زمیں پہ بکھرے ہوئے یہ پنجر
بتا رہے ہیں پتہ کسی کا
اندھا کنواں شہر سے باہر
کیسے کیسے جوان رعنا نگل گیا
کوئی باقی بچا نہیں ہے
بجُز بلائے مرگ آسا
وہ ایک بُوڑھی، کُبڑی ڈائن
جو پچھلی راتوں کو عصا تھامے
بہت مصیبت سے رینگتی ہے
کنویں سے باہر رینگتی ہے
لہو کے تازہ مزے کی خاطر
کس کرب سے وہ چیختی ہے
کوئی ہے کیا؟
سُن رہا ہے؟
کہاں گئے ہو؟
سو گئے ہو یا جاگتے ہو؟
بستی والو! تمہاری دیوی تمہیں بلاتی ہے، خون لاؤ
خون لاؤ کہ میں تمہیں اپنی خوابگاہ کے مہین پردوں میں وہ دکھاؤں
جو اس زمیں کی کسی بھی عورت کے خواب تک کا گماں نہیں ہے
وہ چیختی ہے
مگر وہ عاشق جو اس نے پچھلے کئی برس میں چبا کے پھینکے
وہ کیسے بولیں
کہ اندھی ڈائن کے آئینے میں کوئی جادو بچا نہیں ہے
سارے عاشق مر گئے ہیں
صبح تک وہ یونہی چیختی ہے
پھر آئینے کی اندھیر نگری میں تھک کے بُھوکی ہی اُونگھتی ہے
مریم مجید
No comments:
Post a Comment