ہم ساتھ نہ بھی چلیں لیکن
ہمارے رستے جدا نہیں ہوتے
دوری جو ہو درپیش تو ایسی
جیسے دو قطب ملا نہیں ہوتے
تیری یاد میں نکلتے ہیں بہہ کر
آنکھ سے موتی وہ چرا نہیں ہوتے
اک بار جو کاڑھے جائیں دل پر
نقش وہ تا عمر مٹا نہیں ہوتے
ان میں ہوتی ہے خوشبو لمس کی
خط تب ہی دریا میں بہا نہیں ہوتے
رکھ کر جو عقیدت دل میں کریں
عہد و پیماں وہ پھر جفا نہیں ہوتے
بندھ جائیں جو دل الوہی مُکھ سے
نئے چہروں پہ وہ فدا نہیں ہوتے
فاکہہ تبسم
No comments:
Post a Comment