کہیں تو راکھ کا آنگن سجا ہو
کہ جس میں اپنا بھی تن من چُھپا ہو
کسی بُجھتے ہوئے تارے سے جاناں
ہمارے پیار کا بندھن جُڑا ہو
تمہاری سوچ میں گُم تھا وہی تو
تمہارے دست و پا سے جو جُدا ہو
اسے میراث میں آنسو ملے ہیں
جسے اجداد میں ہجراں ملا ہو
اُٹھاؤ قسم جُھوٹی اب کسی کی
کسی اہلِ وفا کا خاتمہ ہو
تمہیں ہر آس کو پھر بیچنا ہے
تمہارے پاس جب عمرِ گراں ہو
قفط آواز ہی کافی نہیں ہے
مسلسل آہ کا بھی سلسلہ ہو
ہمارا دشت تو ویرانیاں ہے
تمہارے دشت میں میلہ سجا ہو
روایت ہے یہ میرے قافلے کی
کہ کوئی شخص تو ہر پل جُدا ہو
تمہیں بچھڑے ہوا عرصہ ہے پھر بھی
فقط دل کو یہی دھڑکا لگا ہو
علیم ارحم
No comments:
Post a Comment