جب ڈھونڈنے اس کا در گئے ہم
در تو نہ ملا، بکھر گئے ہم
سب سمجھے یہی کہ مر گئے ہم
دن ڈھلنے لگا تھا، گھر گئے ہم
بچھڑی نہ کسی کی یاد ہم سے
ہمراہ رہی، جدھر گئے ہم
بچوں نے بلک کے جب صدا دی
رستے سے پلٹ کے گھر گئے ہم
کر لو گے ہمارا کیا فرشتہ
بالفرض اگر مُکر گئے ہم
ویسے ہے ہمارا جام خالی
کتنوں ہی کے جام بھر گئے ہم
تڑپایا عدیل! یوں اجل کو
ان کی ہر ادا پہ مر گئے ہم
نظیر علی عدیل
No comments:
Post a Comment