ہمیں اب تو اپنا نگر کاٹتا ہے
یہ سناٹا شام و سحر کاٹتا ہے
کسی کی زباں بھی تو شیریں نہیں ہے
کہ جیسے یہاں ہر بشر کاٹتا ہے
درندوں کو چھوڑیں کہ اب آدمی ہی
یہاں ایک دوجے کا سر کاٹتا ہے
محبت کی چھاؤں تھی جن سے چمن میں
کوئی ہے جو ایسے شجر کاٹتا ہے
بلندی پہ اب راج ہے کرگسوں کا
کہ شاہیں ہی شاہیں کے پر کاٹتا ہے
فاروق جرال
No comments:
Post a Comment