اک عجب سے فسوں میں یہاں لوگ ہیں جیسے گھوڑے ہوں کامل سدھائے ہوئے
اجنبی ہاتھ میں ہیں لگامیں سبھی، کچھ تو بے ہوش ہیں، کچھ سُلائے ہوئے
کیا عجب لوگ ہیں میری دنیا کے یہ، دائروں میں بٹے، اور بٹتے رہے
کس کی آواز پر چل پڑے ہیں سبھی، اپنے ہاتھوں میں لاشے اُٹھائے ہوئے
روشنی کی زمیں پر مِرے مہرباں، اک زمانے تلک رات بوئی گئی
اور سیاہی کی ان ساری اجناس سے، سامری ہے دُکاں کو سجائے ہوئے
رات اُتری تھی جب دشت میں چار سُو، خیمے جلتے رہے قافلہ چل دیا
دیکھنا گھر جلائے گی اب آگ یہ، اک منادی تھا ناقوس اُٹھائے ہوئے
نیل کے آب سے علقمہ نہر تک، خوں کی سُرخی گُھلی تو گُھلی ہی رہی
آسماں سے وعیدیں اُترتی رہیں، سو چکے تھے مگر سب جگائے ہوئے
ہاں، مِرے عہد میں اے مِرے قصہ خواں، جانے کیسا عجب ماجرا یہ ہوا
وہ جو کامل تھے فضل و ہنر میں کبھی، گِر پڑے خاک میں، وہ اُٹھائے ہوئے
شاہین کاظمی
No comments:
Post a Comment