مِرے جیون کا یوں واحد سہارا چھن گیا مجھ سے
کہ جیسے ہاتھ میں تھاما غبارہ چھن گیا مجھ سے
نہیں آنکھوں کی بینائی کے جانے پر فغاں میری
گِلہ یہ ہے کہ سورج کا نظارہ چھن گیا مجھ سے
مجھے لگتا ہے دریا کی بھی سازش تھی ڈبونے میں
میں پہنچا جب کنارے پر، کنارہ چھن گیا مجھ سے
سجائی مانگ پھر اس کی کسی ظالم لٹیرے نے
فلک سے توڑ کر لایا ستارہ چھن گیا مجھ سے
مِرا رونا تو بنتا ہے کسی بچے کے جیسے اب
کھلونا جو مجھے سب سے تھا پیارا، چھن گیا مجھ سے
جاوید جدون
No comments:
Post a Comment