فرق اتنا تھا میرے رونے پہ جب ابر برسا
وہ برسا ٹوٹ کے، اور میں ٹوٹ کر برسا
عشق کے کھیل میں لازم و ملزوم رہے دونوں
سر پر پتھر برسے، کبھی پتھر پہ سر برسا
آئینہ دیکھ کر ہوئی تسلی اکیلا نہیں ہوں
پچھلی شب جب مجھ پر تنہائی کا ڈر برسا
ایک ایک بوند کو ترستے رہے صحرا کے مکیں
سنا ہے بے پرواہ آسماں کل نگر نگر برسا
یہاں در و دیوار پر سوتی ہے اُداسی شب بھر
اے قمر! اپنی روشنی نہ میرے گھر برسا
قلندر میں دھمال تو کبھی دھمال میں قلندر
خاک ہر رنگ میں اُڑی کوئی راز اگر برسا
چاک دامن پر جو خون کے دھبے نظر آتے ہیں
جب جب پڑی تیری نظر، میرا جگر برسا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment