Friday, 20 October 2023

نہیں ہو سکتا مرے یار نہیں ہو سکتا

 نہیں ہو سکتا مِرے یار! نہیں ہو سکتا

عشق عاشق کا طرفدار نہیں ہو سکتا

مر رہا ہے جو مِری ایک جھلک کی خاطر

اس کا کہنا تھا اسے پیار نہیں ہو سکتا

چاند سورج کو بھی آغوش میں لے لیتا ہے

اور اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا

تُو مِرا دوست ہے اور دوست بھی اچھا والا

تُو مِری راہ کی دیوار نہیں ہو سکتا

ہم بڑی عمر میں اے عشق! تِری نذر ہوئے

کُھل کے اس عمر میں اِظہار نہیں ہو سکتا

جسم تو جسم، مِری روح بھی ہے ایک ہی اِسم

اور اس اِسم سے اِنکار نہیں ہو سکتا

جُھوٹ کہتا ہے کوئی ایسا اگر کہتا ہے

وہ کسی حُسن کا بیمار نہیں ہو سکتا

ایسے سردار کی سرداری نہیں مانتے ہم

جس کا سر اونچا سرِ دار نہیں ہو سکتا

عشق میں جو بھی روا رکھے دیانت نازش

ہِجر اس شخص کو آزار نہیں ہو سکتا


شبیر نازش

No comments:

Post a Comment