خالی گھر
ایک آہٹ
اور اتنا سناٹا
گھر ہے
دیوار و در سے کیا پوچھیں
روز سنسان شب کی چوکھٹ پر
سائے جب اونگھتے ہیں فرصت کے
خوف میں کانپتے لرزتے کواڑ
گھر کی نس نس میں سنسنی بن کر
دوڑتا برق لہر کا افسوں
اور ہوائیں شریر بچے
جو، دے کے دستک
گلی میں بھاگ گئے
بوڑھی آنکھوں کے بس کی بات کہاں
ان ہواؤں کو بھاگ کر جالے
پھر جتائے کہ ہم نے دیکھ لیا
رات پھر رات ہے
کوئی بھی ہو
کان چھو کر جو موند لے آنکھیں
لمس لیکن بتا کے رہتا ہے
تیرگی کا بدن؟
غنیمت ہے نیند میں ڈر سے سہمے بچے کو
گھر کے زینوں پہ پاؤں دھرتے ہوئے
خواب کی کوکھ سونی ملتی ہے
خالی گھر ان کہی کا مندر اور
خامشی داستاں سرائے کی
داستاں سے بھی بڑھ کے دلکش ہے
انور زاہد
No comments:
Post a Comment