گُلوں سے کرتا ہے جب گُفتگو نہیں تکتا
کسی طرف بھی مِرا خوش گلُو نہیں تکتا
وہ شخص دیکھیے مطلب پرست ہے کتنا
جو پُھول دیکھتا ہے رنگ و بُو نہیں تکتا
نہ جانے کیا تِری آنکھوں میں ہے سمایا ہوا
جو ہم تکاتے ہیں تجھ کو وہ تُو نہیں تکتا
یہ عشق ہے کہ محبت ہے کچھ نہیں معلوم
اسے میں خواب میں بھی بے وضُو نہیں تکتا
سرورِ ہستئ اپید ہے مجھے کافی
میں اک نگاہ بھی جام و سبُو نہیں تکتا
اُترتا جاتا ہے لمحوں میں زندگی کا جمال
ہم ہوتے جاتے ہیں بے آبرُو نہیں تکتا
تلاش لوں گا محبت کا میں سرا عادل
یہ رات دن کی مِری جُستجُو نہیں تکتا
نوشیروان عادل
No comments:
Post a Comment