طے کروں گا یہ اندھیرا میں اکیلا کیسے
میرے ہمراہ چلے گا میرا سایا کیسے
میری آنکھوں کی چکا چوند بتا سکتی ہے
جس کو دیکھا ہی نہ جائے، اُسے دیکھا کیسے
چاندنی اُس سے لپٹ جائے، ہوائیں چھیڑیں
کوئی رہ سکتا ہے دنیا میں اچُھوتا کیسے
میں تو اُس وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسُو ہے، تو ٹپکا کیسے
یاد کے قصر ہیں، اُمید کی قندیلیں ہیں
میں نے آباد کیے درد کے صحرا کیسے
اس لیے صرف خُدا سے ہے تخاطب میرا
میرے جذبات کو سمجھے گا فرِشتہ کیسے
ذہن میں نِت نئے بُت ڈھال کے یہ دیکھتا ہوں
بُت کدے کو، وہ بنا لیتا ہے کعبہ کیسے
اُس کی قُدرت نے مِرا راستہ روکا ہو گا
پوچھ مجھ سے کہ قیامت ہوئی برپا کیسے
گر سمندر ہی سے دریاؤں کا رزق آتا ہے
اُس کے سینے میں اُتر جاتے ہیں دریا کیسے
ٹوٹتی رات نے سُورج سے یہ سرگوشی کی
میں نہ ہُوتی تو تِرا نُور برستا کیسے
میں تو ہر سانس میں، آ جاتا ہوں فردا کے قریب
پھر بھی فردا مجھے دے جاتا ہے دھوکا کیسے
تہہ میں ڈوبے ہوئے ملاح سے پوچھے کوئی
موجۂ بحر نے کشتی کو اُچھالا کیسے
لوگ جو خاکِ وطن بیچ کے کھا جاتے ہیں
اپنے ہی قتل کا کرتے ہیں تماشا کیسے
جو مِرے دستِ مشقت کے ہیں محتاج، ندیم
چھین لیتے ہیں مِرے منہ کا نوالہ کیسے
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment